Mushahid Razvi Blogger Team
سن لیا ہم نے سوالِ وصلِ دل بَر کا جواب
نا اُمیدی کہہ گئی دل سے مقدر کا جواب
دیکھ کر تم دیدۂ پُر آب کو ہنسنے لگے
کیا یہی تھا گریۂ عشاقِ مضطر کا جواب
کچھ ترس آیا نزاکت پر بڑھا کچھ جوشِ قتل
ورنہ تیرِ آہ تھا قاتل کے خنجر کا جواب
یہ مرا دل ہے جو تیوری چڑھانے پر ہو چپ
آئینہ سے صاف سنیے گا برابر کا جواب
سخت باتیں سن کے دل کچھ کہتے کہتے چپ رہا
پی گیا شیشہ ہمارا اُن کے پتھر کا جواب
بال بیکا ہونے پر توڑے گئے شانے کے دانت
قہر تھا دنداں شکن زُلفِ معنبر کا جواب
سایہ کچھ معشوق کا عاشق پہ ہوتا ہے ضرور
ہے مرا حالِ پریشاں زُلفِ اَبتر کا جواب
جب شکایت ہم نے دردِ زخمِ دل کی اُن سے کی
اُن کی جانب سے ملا تلوار کا چرکا جواب
درد اُٹھا دل میں، ہوئے پھر زندہ اگلے رنج و غم
ہے ہماری شامِ فرقت صبح محشر کا جواب
جوشِ حیرت سے زبانیں داد خواہوں کی ہیں بند
دے گیا جلوہ تمہارا اہلِ محشر کا جواب
نام نکلا ہے قیامت کا خرامِ ناز سے
لا سکے محشر کہاں سے تیری ٹھوکر کا جواب
حالِ غم سن کر کہا اُس نے غلط ہم مر گئے
تھا پیامِ مرگ اے دل اُس ستم گر کا جواب
دُور سے وہ دیکھتا ہے تا پڑے پورا نہ عکس
ہو نہ آئینہ کے گھر میرے برابر کا جواب
زندے سب مر مر گئے مُردوں میں ہلچل پڑ گئی
دو قدم چلنا ترا ہے لاکھ محشر کا جواب
چاک کر کے اُس نے خطِ شوق قاصد سے کہا
بس ہمارے پاس یہ ہے اُن کے دفتر کا جواب
اُس نگاہِ مست کے جلووں سے دل لبریز ہے
آج ہے کس مے کدہ میں میرے ساغر کا جواب
پھول آئینے قمر خورشید سب موجود ہیں
اِن میں کوئی بھی ہے نقش پاے دل بَر کا جواب
تم نے خطِ شوق پڑھ کر کہہ دیا بالکل غلط
کیا یہی جملہ ہے میرے سارے دفتر کا جواب
دے کے خط پیغام بَر کو یاس سے کہتا ہوں میں
آ رہے گا ہے اگر میرے مقدر کا جواب
آپ کہتے ہیں حسنؔ کو دُور ہی سے ہے سلام
خیر میں کیا دوں سلامِ بندہ پرور کا جواب
0 Responses

Post a Comment

ثمر فصاحت 2013. Powered by Blogger.