میں کیا پوچھوں کہ ہے میری خطا کیا
پیش کش : ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی
میں کیا پوچھوں کہ ہے میری خطا کیا
عتاب بے سبب کا پوچھنا کیا
عتاب بے سبب کا پوچھنا کیا
نہیں احوالِ دل تعریف دشمن
سنیں وہ کان دھر کر ماجرا کیا
چڑھاؤ آستیں خنجر نکالو
یہ چپکے چپکے مجھ کو کوسنا کیا
یہ پہلے سینے سے لب تک تو آ لے
ہوا باندھے گی آہِ نا رَسا کیا
رہے گی بے اَثر ہی حسرتِ دید
نہ ہو گا حشر میں بھی سامنا کیا
بھرے ہیں دشمنوں نے کان اُن کے
سنیں ٹوٹے ہوئے دل کی صدا کیا
فدا کرتے ہیں وہ اَغیار پر روز
میری تصویر کا خاکہ اُڑا کیا
ہماری سخت جانی کو بھی دیکھو
لگاؤ ہاتھ کوئی سوچنا کیا
اُنھیں جب جان سمجھیں اہلِ اُلفت
پھر اُن کی بے وفائی کا گلہ کیا
ہوئے ہم اِبتداے عشق ہی کے
خدا ہی جانے ہو گی اِنتہا کیا
حسنؔ اب کیوں ہے جامِ مے سے انکار
کہو تو زہر اِس میں گُھل گیا کیا
Post a Comment