Mushahid Razvi Blogger Team
جہان سے اُسے کیا کام جو ہو جان سے دُور
جو تم سے دُور ہے گویا ہے سب جہان سے دُور
ہوئے ہیں جب سے ہم اس دَر سے اس مکان سے دُور
ہمارے دم پہ بنی ہے تمہاری جان سے دُور
عدُو کے ہوتے کریں پاس ذلتِ عاشق
یہ بات ہے مرے نزدیک اُن کی شان سے دُور
وہ دستِ شوق کی گستاخیاں وصال کی شب
وہ اُن کا شرم سے کہنا دبی زبان سے دُور
بلائیں غیر کو میں جاؤں تو وہ فرمائیں
مری گلی سے مرے دَر مرے مکان سے دُور
ملا ہے آنکھ کے تارے سے وہ مہِ خوبی
غمِ فراق رہے یا رب اس قِران سے دُور
تلاش کر دلِ گم راہ بے نشاں ہو کر
یہی نشان ہے اُن کا کہ ہیں نشان سے دُور
یہ پاسِ اہلِ محبت کیا کہ محفل میں
رقیب کا نہ ہوا منہ تمہارے کان سے دُور
جو راست باز ہیں کج رَو سے میل رکھتے نہیں
کہ تیر ملتے ہی ہو جاتے ہیں کمان سے دُور
عجب نہیں جو بُلایا ہو جَور کرنے کو
جنابِ دل نہیں کچھ میرے مہربان سے دُور
مرے نصیب کو گردش مجھے دیے چکر
پر اُن کا راہ پہ لانا تھا آسمان سے دُور
عدو کی بزم میں وہ بے بُلائے جاتے ہیں
مرے ہی پاس کا آنا تھا اُن کی آن سے دُور
خرامِ ناز کے نزدیک کوئی چیز نہیں
جو بات فتنۂ محشر کے ہو گمان سے دُور
وہیں چلا دلِ مضطر جہاں سن آیا تھا
اِسی میں خیر ہے رہنا مرے مکان سے دُور
یہ دل کا حال ہے ظالم تری جدائی میں
کہ جس طرح ہو کوئی اپنے مہربان سے دُور
نصیبِ غیر کھلا دل بھی پاس جان بھی پاس
غریبِ اہلِ وفا دل سے دُور جان سے دُور
غمِ فراق اور ایسا غمِ فراق حسنؔ
میں اُن کے دل سے، میرا حال اُن کے کان سے دُور
Mushahid Razvi Blogger Team

نگہِ قہر ہے ہر لحظہ گرفتاروں پر
دیکھیے کیا غضب آتا ہے گنہ گاروں پر

قتل ہونے کی تمنا ہے یہ اُن ہاتھوں سے
خود گلا دوڑ کے ہم رکھتے ہیں تلواروں پر

ساقیا جامِ مئے سرخ کا پھر دَور چلے
دیکھ وہ کالی گھٹا چھائی ہے گل زاروں پر

بڑھ کے نکلے یہ قمر حسن میں تجھ سے توبہ
ایسے سو چاند تصدق ترے رُخساروں پر

بلبلو فصلِ بہاری کا بھروسہ کیا ہے
خاک اُڑ جائے گی دو روز میں گلزاروں پر

کر دے پامال ہی ظالم کہ یہ جھگڑا تو مٹے
ہاتھ رکھتا نہیں کوئی ترے بیماروں پر

تو نے اس شعلۂ عارض سے لگائی پھر لو
دلِ پُر سوز لٹاؤں تجھے انگاروں پر

پوچھنا چھوڑ دیا جب سے مری جاں تو نے
مُردنی چھائی ہوئی ہے ترے بیماروں پر

اے حسنؔ اُٹھو کمر باندھو چلو صبح ہوئی
بُجھ گئیں شمعیں وہ جوبن نہ رہا تاروں پر
Mushahid Razvi Blogger Team





























Mushahid Razvi Blogger Team

Mushahid Razvi Blogger Team

Mushahid Razvi Blogger Team

Mushahid Razvi Blogger Team
پائے کہاں تجلیِ دل دار آفتاب

شہنشاہ سخن استاذ زمن علامہ حسن رضا بریلوی

پائے کہاں تجلیِ دل دار آفتاب
ہیں اُس کے عکس سے در و دیوار آفتاب
اللہ رے تیرے حسنِ نکو کی تجلیاں
ہے پشتِ آئینہ سے نمودار آفتاب
کب حسنِ خود نما کو مکاں سدّ باب ہو
تاباں ہے ہر طرف پسِ دیوار آفتاب
دم بھر ٹھہر گیا تھا جمالِ رُخِ حبیب
اب تک ہے چشم و دل میں ضیا بار آفتاب
رنگینی و فروغِ رُخِ یار کچھ نہ پوچھ
پیدا ہیں کس بناؤ سے گلزار آفتاب
ہر دم خیالِ پردۂ رُخسارِ یار ہے
ہر وقت ہیں نگاہ میں دو چار آفتاب
چشمِ خیال خیرہ ہے اُن کے خیال سے
کیوں کر کہوں کہ ہیں ترے رُخسار آفتاب
پروانوں میں چراغ ستاروں میں ماہتاب
گُل بلبلوں میں ذرّوں میں ہے یار آفتاب
چڑھ جائے کیوں نہ چرخ پر اس افتخار سے
اُترا ہوا ہے صدقۂ دل دار آفتاب
اُس مست کا ہے جلوۂ رُخسار زُلف میں
رکھتی ہے مے کشوں کی شبِ تار آفتاب
ظلمت نہ پوچھیے مرے روزِ سیاہ کی
مانگیں چراغ آئیں جو دو چار آفتاب
مجھ تیرہ روزگار پر اک جلوہ تم کرو
مطلوب ماہتاب نہ درکار آفتاب
تاروں کے پھول پائے تو تارِ شعاع میں
گُوندھے ترے گلے کے لیے ہار آفتاب
وہ نام ہے فروغِ دلِ اہلِ معرفت
جس نے کیا ہے تجھ کو ضیا بار آفتاب
پہنچیں گے کس طرح سے تمہارے جمال کو
ہے آفتاب باغ نہ گلزار آفتاب
لکھتا  بیاضِ صبح پہ خطِ شعاع میں
سنتا اگر حسنؔ سے یہ اشعار آفتاب
ثمر فصاحت 2013. Powered by Blogger.