نالہ سن کر ہنس رہا ہے عاشق ناشاد کا
پیش کش : ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
نالہ سن کر ہنس رہا ہے عاشق ناشاد کا
اے تغافل کیش کچھ منہ کر لبِ فریاد کا
اے تغافل کیش کچھ منہ کر لبِ فریاد کا
کب ہوا اے شوقِ وصل اُس پر اَثر فریاد کا
کیوں کلیجہ نوچتا ہے تو دلِ ناشاد کا
حال میں کس سے کہوں اپنے دلِ ناشاد کا
ہائے کوئی سننے والا ہے میری فریاد کا
جب انہیں ملنا نہ ہو منظور تو کیسا اَثر
کیا بھروسہ آہ کا، کیا آسرا فریاد کا
نوچ لیتے ہیں کلیجہ نالہ ہائے بے کسی
منہ نہ کھلوائے کوئی میرے لبِ فریاد کا
اہلِ اُلفت نالہ کش معشوق حیرت میں خموش
شور ہے تیری خموشی کا میری فریاد کا
بے خبر ہو، بے خبر کو کیا خبر اس درد کی
سنگ دل ہو، سنگ دل پر کیا اَثر فریاد کا
لو چلے آؤ کہ رازِ عشق ہو جائے نہ فاش
لو چلے آؤ کہ اب وقت آگیا فریاد کا
وہ ادائے جاں ستاں پھڑکا گئی تڑپا گئی
وار مجھ پر تیغ سے پہلے چلا جلاّد کا
خاک میں مل جائے گی قدرِ شہادت تیرے ساتھ
خون ناحق بچ رہا دامن اگر جلاّد کا
خونِ حسرت ہاں دکھا رنگیں مزاجی کی بہار
دامنِ گل چیں بنے دامن مرے جلاّد کا
یاد کرنا تو بھلایا بھول جانا یاد ہے
بھول جانے والے قائل ہوں میں تیری یاد کا
کس کے جلوؤں نے اِرادوں کو مسخر کر لیا
اب نہ کوئی جور کا شاکی نہ سائل داد کا
کوئے قاتل میں الٰہی کس نے رکھا ہے قدم
شور ہے کس کی زباں پر ہر چہ بادا باد کا
آ، یہ آنکھیں تلوؤں سے مَل آ، یہ دل پامال کر
دن دکھا دے چشم ما روشن دلِ ماشاد کا
او تغافل کیش چیخ اٹھے میرے نالوں سے کوہ
دل تیرا پتھر کا، پتھر کا نہیں فولاد کا
ضبط عشق حُسن گندم گوں بہت دشوار ہے
چاہیے ہے پیٹ اس کے واسطے فولاد کا
اُف صفائے جسم جب وہ کھینچنے بیٹھا شبیہ
خامۂ بہزاد سے نقشہ کھنچا بہزاد کا
ہائے مجبوریِ اُلفت ہاے جوشِ بے کسی
غیر سے کہتا ہوں میں یہ وقت ہے اِمداد کا
آنکھ شیریں سے لگی اب نیند کہتے ہیں کسے
خوابِ شیریں سے رہا کیا واسطہ فرہاد کا
گر نہ ہو مُہر دہن تیری نزاکت کا خیال
ہے تیرا خاموش رہنا ایک ہی فریاد کا
جس طرح منہ تکتے ہیں ہم آج ظالم تو سہی
منہ تکے کل حشر میں تو شاکیِ بے داد کا
آ گیا ہے جب مجھے ذوقِ شہادت کا خیال
منہ میں بھر آیا ہے پانی خنجرِ جلاّد کا
کیوں نہ ہو میرے سخن میں لذتِ سوز و گداز
اے حسنؔ شاگرد ہوں میں داغ سے اُستاد کا
Post a Comment