Mushahid Razvi Blogger Team
کلیاتِ حسن:نئی تشکیل نیاآئینہ
تحریر:محمّدادریس رَضوی ،ایم ۔اے
سنّی جامع مسجد،پتری پُل،کلیان(مہاراشٹر)
چیف ایڈیٹر:’’المختار‘‘کلیان
بہ شکریہ : برادرم محمد ثاقب قادری ضیائی

دولت سے دولت پیداہوتی ہے دَھن سے دَھن نکلتاہے شاخوں سے شاخیں پھوٹتی ہیں تخلیق سے تخلیق جنم لیتی ہے کتاب سے کتابیں بنتی ہیں یاکتابوں سے کتاب منظرعام پرآتی ہے ایساہی ایک آئینہ پیش نظرہے اس آئینہ میں کئی آئینے جڑے ہوئے ہیں وہ آئینے الگ الگ ناموں سے ایک صدی پیشتر علیٰحدہ علیٰحدہ طاقو ں سجے ہوئے تھے اب توڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے تھے ان تمام صاف وشفا ف ، منوروروح پرور،پُرلطف وپُرکیف آئینوں کویکجاکرکے ایک نام دے کرایک محراب میں رکھ کرایک آئینہ بنایا گیا ہے جب وہ آئینہ قارئین کے سامنے آئے گ قارئین اس آئینہ کواُلٹ پلٹ کردیکھیں گے توان کواس آئینہ میں آئینہ ،آئینہ، آئینہ، آئینہ، آئینہ، آئینہ، نظرآئے گ  پہلا آئینہ:ذوقِ نعت دوسراآئینہ:وسائل بخشش  تیسراآئینہ:صمصامِ حسن چوتھاآئینہ:قندپارسی پانچواں آئینہ:ثمرفصاحت چھٹاآئینہ:قطعات واشعارِ حسن آئینوں کوآئینہ خانہ بنایاگیاہے آئینہ اورآئینہ خانہ میں فرق ہے آئینہ وہ ہے جس کوقارئیں سمجھتے اورجانتے ہیں لیکن آئینہ خانہ وہ ہے جس کوسب نہیں سمجھتے نہ جاتے ہیں آئینہ خانہ میں مختلف آئینے ہوتے ہیں جس میں کوئی آئینہ حسن وصورت ولباس کاآئینہ دارہوتا ہے ․․ ․․کوئی آئینہ ،آئینہ دیکھنے والوں کواتناموٹاوفربہ بنادیتاہے کہ دیکھنے والے بے ساختہ ہنس پڑتے ہیں کوئی آئینہ اتنالمباکردیتاہے کہ دیکھنے والوں کے لبوں پر مسکراہٹیں دوڑجاتی ہیں کوئی آئینہ ایسادبلاپتلابنادیتاہے کہ دیکھنے والاڈرجاتاہے  الغرض یہ کہ کوئی آئینہ حُسن کوبڑھادیتاکوئی حُسن کوگھٹادیتاہے کوئی خوشی وطرب کی آغوش میں پہنچادیتاہے کوئی ہئیت کو ایسا بگاڑ دیتا ہے کہ دیکھنے والاسہم کررہ جاتاہے۔

لیکن اس آئینہ خانہ سے ہٹ کریہاں دوسراآئینہ خانہ ہے  اس آئینہ خانہ میں عبدومعبودکے فرق کوبتایاگیا ہے ؂

فکراسفل ہے میری مرتبہ اعلیٰ تیرا
وصف کیاخاک لکھے خاک کاپتلاتیرا
شعرمیں سبق ہے درس ہے پہچان ہے حدامتیازہے ایک طرف خالق دوسری جانب مخلوق ایک سمت عبد   دوسری طرف معبود بندے کی سوچ سطحی رب کامقام اعلیٰ  مرتبہ نرال شان بال ایسی حالت میں اس کے اوصاف کوپہچانناہی مشکل لگتاہے تواوصاف کیالکھے؟خاک کاپتلاتیر لیکن یہ تیرامیں بہت معنی چھپاہواہے تیراہوکرہی یہ تیراپیاراہو تیرے قرب میں جورہااس نے ہمیں بتایا!توہم جان گئے  کیاجان گئے ؟وہ یہ کہ ؂
نئے اندازکی خلوت ہے یہ اے پردہ نشیں
آنکھیں مشتاق رہیں دل میں ہوجلوہ تیرا

ہمارے نبی پاک ﷺ رب کے قرب میں رہے زمین پرآئے پھرقرب میں لامکاں تک گئے آپ ﷺ نے ہمیں رب کا مقام بتاکررب کے قریب کردی اس تذکرے کو’’ذوق نعت‘‘میں اس طرح سے پرویا گیا ہے ؂

واہ اے عطرِ خدا ساز مہکنا تیرا
خوب روملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا
Iدَہر میں آٹھ پہر بٹتا ہے باڑا تیرا
وقف ہے مانگے والوں پہ خزانہ تیرا
لامکاں میں نظر آتا ہے اُجالا تیرا
دُور پہنچایا تیرے حُسن نے شہرہ تیرا

ان اشعارکی تشریح وتصریح طوالت کاسبب ہے احادیث پاک کی روشنی میں ان کی تشریح کئی صفحات میں پھیل جائے گی اس مختصرمضمون میں اس کی گنجائش نہیں دوسری بات یہ ہے کہ راقم اپنی محدودمعلوت کی بنا پر جانتاہے کہ’’ذوقِ نعت‘‘آئینۂ تمثال بن کرہندوپاک کے عام وخاص کے طبقے میں چمک رہاہے جس میں آہ بھی ہے سوزبھی دردبھی ہے درماں بھی جذبہ بھی ہے موج بھی حُسن بھی ہے عشق بھی ترجمہ بھی ہے تفسیر بھی ہے تحریک بھی یہ پاک وصاف اوراثرانگیزآئینہ ہے یہ نئی تشکیل کانیاآئینہ اس میں دین بھی ہے، آخر ت بھی ادب بھی ہے اشک بھی  اس آئینہ کوادب سے دیکھو،اشک بہاکردیکھو،مسکراکردیکھو،خوش دلی سے دیکھو جھوم کردیکھو داددے کردیکھو پڑھ کردیکھو ہرحال میں سود مندہے۔

وسائلِ بخشش:اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخاں قادری نے اپنے مجموعہ کانام حدائق بخشش رکھ تقلیدمیں حضرت حسنؔ رضابریلوی نے بھی اپنے ایک مجموعہ کانام وسائل بخشش چن جس میں وجدآفریں اشعارہیں معلوم ہوتاہے کہ ایک آئینہ لگاہے اورتجلیوں کے نوراس سے چھن چھن کرنکل رہے ہیں،چنداشعارسے محظوظ ہو لینا مناسب سمجھتاہوں ؂

٭
سب کچھ نظرآئے اس نظرسے
پر دیکھیں نظر کو کس نظرسے
جب خلق کویہ صفت عطا ہو
وہ کیا نظر آئے جو خدا ہو
جو وہم وقیاس سے قریں ہے
خالق کی قسم خدا نہیں ہے
جو بھید کو اس کے پاگئے ہیں
ہستی اپنی مٹا گئے ہیں
کچھ راز اُدھر کا جس نے پایا
پھر کر وہ اِدھر کبھی نہ آیا
کچھ جلوہ جسے دکھا دیا ہے
صم بکم بنا دیا ہے
دل میں ہیں ہزاروں بحرپُرجوش
3ہے حکم زبان کو کہ خاموش

ایساسب کوکہنا نہیں آت نہ ایساسب کہہ سکتے ہیں ایساکہنے کے لئے ایسابنناپڑتاہے ایسابننااپنے بس کی بات ہے  جب تک وہ نہ بنائے کوئی بن نہیں سکت یہاں حکم ہے اِردگردکی باتیں کہو جودیکھتے ہووہ نہ کہو  نہیں تومنصورکی طرح سے پھانسی پرلٹکادیئے جاؤگے بات پردے کی ہے توپردے میں رہنے دو ایک گھونٹ پی کربہک مت جاؤ سمندرپی کربھی ھل من مزیدکانعرہ لگاؤ ہم پلاتے رہیں تم پیتے رہوگے۔

شاعری صرف تخیل کے پروازکانام نہیں ہے شاعری میں لوہے بھی ہوتے ہیں پیتل اورتانبے بھی سونے اورچاندی بھی ہوتے ہیں لعل وگہربھی ہیرے جواہرات بھی ہوتے ہیں اس سے اوپراگرکوئی چیزہے تووہ بھی  اس میں فن بھی ہوتے ہیں فنائیت بھی رضابھی ہوتی ہے خوشنودی بھی  صوری ومعنوی خوبیاں بھی ہوتی ہیں،صنائع کے اقسام بھی لکھنؤکی فصاحت وبلاغت کی داستان آج تک زندہ ہے کہاجاتاہے کہ ایک مسافر نے ایک بھنگن سے دریافت کیاکہ مجھے فلاں محلہ میں جاناہے؟بھنگن کاجواب تھااس محلہ میں جانے کے دو راستے ہیں ایک سے دُورودرازہے دوسرے سے نشیب وفراز وہاں کی بھنگن کی زبان میں ایسی فصاحت وبلاغت تھی تووہاں کے زبان داں اوراہل زبان کاکیاپوچھن اسی لکھنؤ کے سعادت یارخاں رنگین بھی تھے انہوں نے شعراء کوچارخانوں میں تقسیم کی پروفیسرسیدشبیہہ الحسن ’’لغات الصنائع‘‘کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’انہوں نے ایک رسالہ اخباربھی لکھاہے جس میں شعراکی چارقسمیں بتائی ہیں،شاعر،استاد، ملک الشعراء اورعلامہ،ہرایک کے متعلق انہوں نے اپنے خیالات ظاہرکئے اورہرایک کوانہوں ­ نے کسی نہ کسی حلقہ میں جگہ دی،مگرعلامہ صرف اپنے ہی کوکہااوربہت سی دلیلوں کے ماسوایہ بھی لکھا ہے کہ ستائیس اصنافِ سخن میں ان کاکلام موجودہے‘‘

سعادت یارخاں رنگین نے اپنے ہم عصرکے کلاموں کوبھی ٹٹولاہوگااورجب دیکھاہوگاکہ میرے کلام میں جتنے اصناف سخن ہیں وہ کسی دوسرے کے کلام میں نہیں ہیں توعلامہ کے خانہ میں خودکے علاوہ کسی کوداخل نہیں ہونے دی ایک سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ اصنافِ سخن کی کتنی قسمیں ہیں؟اس تعلق سے ڈاکٹریحییٰ نشیط نے راقم کی تصنیف’’کلام راہی اورصنائع وبدائع‘‘کی تقریظ میں رقم کیاہے کہ صنائع کی
۱۱۷قسمیں ہیں  ۱۱۷میں سے ۲۷نمبرحاصل کرنے پرسعادت یاررنگین نے علامہ کے خانہ میں بیٹھنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی توراقم کی گزارش ہے   حضرت حَسن رضاحسنؔ بریلوی کی شاعری پرخامہ فرسائی کرنے،ایم فل کرنے ، پی ایچ۔ڈی کرنے والوں سے کہ حضرت حسنؔ کے کلام اصناف سخن پرلکھنے کے لئے کمربستہ ہوجائیں اور دیکھیں کہ ان کے یہاں کتنے اصنافِ سخن موجودہیں  اب یہ گلہ کرنے کاموقعہ نہیں ہے کہ ان کی فلاں فلاں کتابیں دستیاب نہیں ہے  اسی تسلسل کے اوپرراقم نے حضرت حسن ؔ کے سات اشعارکونقل کیاہے  ان سات اشعار پرسرسری نظرکیا تو مجھے چارطرح کے اصناف سخن نظرآئے  غوطہ لگانے والوں کواوربھی مل سکتے ہیں۔

صمصامِ حسن:حَسن کی تیزتلوار،یہ تیزتلوارکیاہے؟یہ تلوارکب چلی،کس پرچلی،کیسے چلی،کیوں کرچلی؟یہ سب باتیں ماضی کی یادیں بن کرتاریخ کے صفحات مرقوم ہوکرآئینہ بن چکے ہیں ان باتوں کوجاننے کے لئے ’’ صمصام حَسن‘‘کے اوراق کے آئینہ کوپلٹناہوگ یہ ردوابطال کی تلوارتھی اورہے ساتھ میں ماضی کاآئینہ ہے  فارسی زبان میں ہے،فارسی ادب کابہتیرین نمومہ ہے فارسی زبان کی چاشنی سے لطف اندوز ہوناچاہتے ہیں تو ’’ صمصام حَسن‘‘کے آئینہ کوسامنے کیجئے صداقت آپ پرواضح ہوجائے گی آئینہ کی چندلہروں کودیکھئے ؂
قہر خدا داد سزاے عناد
کیفر کفرش بکنارش نہاد
مگر سگان ہم بسگاں مارشد
ندوہ وندوی ہمہ فی النارشد
حق سخن کافرکان پست کرد
دارو در از جملہ بر آورد دگر
ندوہ ودارش ہمہ ناکام رفت
بود بد آغاز بد انجام رفت
ان لہروں میں تیرروی ہے  لپک ہے،چہک ہے،چمک ہے  ادب ہے ،ادبیت ہے  فصاحت ہے، بلا غت ہے اورسب سے بڑھ کریہ کہ چاروں اشعارمیں صنائع وبدائع کے بیل بوٹے کھلے ہوئے ہیں۔
قندپارسی:یہ واقعی قندہے،بلکہ قندسے بڑھ کرقنداورخوبصورت ہے’’ہاتھ کنگن کوآرسی کیا‘‘کلیات حاصل کیجئے اور بسم اﷲ پڑھ کرشروع کردیجئے پڑھیں گے توآپ خودہی کہیں گے کہ لگتاہے علامہ حَسن ؔرضابریلوی کے سامنے جملہ والفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہوئے ہیں اورآپ ان جملہ والفاظ کواشعارمیں پروکرلعل وگہربناتے ہوئے چلے جارہے ہیں استادزمن فارسی پرنہیں بلکہ فارسی استادزمن پرنازکررہی ہے صرف دوشعر دیکھئے ؂
اے مکن پور مکیں شاہِ زماں ماہِ زمیں
سید جید دہر ابن علی آلِ نبی
ظاہر طاہر تو راہِ متیں ماہِ مبیں
باطن فاخر تو سرّ خفی رمز خبی
ان دوشعروں میں صنائع کی کئی کونپلیں پھوٹی ہیں اب یہ کونپلیں بے تاب ہوکرکہہ رہیں کہ  ہے کوئی !مجھے پہچاننے والاتووہ آگے بڑھ کرآئے اور مجھے اٹھا کرعلم وادب اورعلماء کی محفل میں پہنچائے میری زینت میں چارچاندلگاکرحسنؔ شناس کہلائے۔
ثمرفصاحت:کہاجاتاہے کہ یہ غزلیہ دیوان ہے بہت سے شوریدہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عشق حقیقی تک پہنچنے کے لئے عشق مجازی کاآنچل تھامناضروری ہے یاعشق حقیقی والا،عشق مجازی کی راہ سے عشق حقیقی تک پہنچتاہے  کہنے کوکہہ دیالیکن یہ نہیں سوچاکہ عشق مجازی میں آلودگی ہے عشق حقیقی میں بے تابی عشق حقیقی کے لئے آلودگی رکاوٹ ہے مجازاورحقیقت دوالگ تلواریں ہیں اورایک میان میں دوتلواریں نہیں رہتی ہیں۔
ثمرفصاحت:میں مجازکے پردے میں حقیقت کے نقوش ابھرے ہیں یاحقیقت کی راہ سے گزرتے ہوئے مجاز کی خوشبوپھیلی ہے؟  یہ تواپنے اپنے ظرف کی باتیں ہیں   عام وخاص دونوں اس سے مستفیض ہوں، ثمر فصاحت سے بھی ایک دونمونہ دیکھ لیاجائے ؂
اتنا پوچھا تھا کہاں سے آئے گھبراتے ہوئے
چل دیے کچھ منھ ہی منھ میں مجھ کوفرماتے ہوئے
مذکورہ شعرمجازی معلوم ہوتاہے عشق مجازی میں ڈوبنے والے یہ کہیں گے یہ منظرہماراہے ہماری آپ بیتی ہے یہ ہمارے محبوب کی اداہے لیکن اس شعرسے پہلے والاشعرکواس شعرکے ربط میں رکھ کردیکھئے کہ یہ مجازی ہے یاحقیقی؟
اب نظر آتے ہیں زاہد راہ پر آتے ہوئے
تا درِ مے خانہ آجاتے ہیں سمجھاتے ہوئے
بہرحال یہاں آئینہ سازاستاذداغؔ دہلوی کے شاگرداستادزمن حسن رضاحسنؔ بریلوی ہیں جنہوں نے ذوقِ نعت کا آئینہ ، وسائل بخشش کاآئینہ،صمصامِ حسن کاآئینہ،قندپارسی کا آئینہ، ثمر فصاحت کا آئینہ ،قطعات کا آئینہ بنای  ان آئینو ں کوآئینہ خانہ میں تبدیل کرنے والے دوہیں ایک محمدثاقب رضاقادری ضیائی،لاہور اوردوسرے محمد افروز قادری چریاکوٹ،انڈی ان میں سے کوئی آئینہ ایک صدی پیشترکوئی اس سے بھی زیادہ کوئی اس سے کم ، ماضی میں بنائے تھے عام طورپرنہ سہی ،پڑھے لکھے اوراہل ذوق وشوق کے پاس دیکھنے کوملتے تھے پھریہ آئینے مکانوں سے دوکانوں سے اہل ذوق کے میزوں سے،شوق رکھنے والوں کے تھیلوں سے، لائبریریوں سے غائب ہونے لگے  ․ اورایسے غائب ہوئے کہ دیدارمشکل ہوگی  چند یا کچھ نفوس نے ان آئینوں کواپنی اولادکے لئے وراثت میں چھوڑ اولادنے اسے چھپاکررکھاکسی کودیکھنے ، دکھانے کی زحمت نہیں کرتی تھی شایدقبرمیں لے جانے کوشش کررہی تھی ایسے عالم میں دوہمت وروں نے ان آئینوں کوڈھونڈنکالنے کاعزم باندھااورارادہ مصمم کیاکہ جب تک معرکہ سرنہیں ہو گا چین سے نہیں بیٹھیں گے ان دونوں نے حضرت حَسن رضا حسن ؔبریلوی کے سا رے اثاثے کوڈھونڈنکال  کلیات میں شامل’’ ذوقِ نعت‘‘کے ٹائیٹل پیج کاعکس بتاتاہے کہ یہ ’’حزب الا حنا ف لاہورسے شائع شدہ نسخے کاعکس ہے’’وسائل بخشش‘‘میں مطبع نادری بریلی سے شائع شدہ نسخے کاسرورق دکھایاگیاہے’’صمصام حسن‘‘کے لئے مطبع حنفیہ پٹنہ سے شائع شدہ نسخہ کاسرورق قارئین کے پیش نظرکیا گیا ہے ’’ ثمرفصاحت‘‘مطبوعہ اہل سنت وجماعت بریلی کے نسخے کاعکس سامنے کرکے سامعین وقارئین کے آنکھوں کو خیرہ کیاہے ،اس کے بعد قطعات واشعارکا سلسلہ چلتاہے،جویہاں وہاں سے چنے گئے ہیں  یہ کلیات یونہی کلیات نہیں بن گئی ہے بلکہ اس کوتیارکرنے کے لئے مرتبین نے بڑی محنتیں کی ہیں  آغازسخن کے تحت لکھتے ہیں:
’’اس ہفت اقلیم کوسرکرنے،اوراس کی تلاش وجستجونے ہم سے کیاکچھ جتن کروائے،اورکہاں
-کہاں کی خاک چھنوائی‘‘
آپ حضرات نے خاک چھان کرگم شدہ اعلیٰ شاعری، اعلیٰ ادب،لازوال دولت کوبرآمدکیاہے یہ بہت بڑا کام ہواہے آپ صلہ ہی نہیں بلکہ انعام کے مستحق ہیں لیکن اس کاصلہ آپ کوکوئی نہیں دے گ صلہ آپ کوآپ کا کام دے گ  یہ اہم اور نمایاں کام آپ لوگوں کے ناموں کوزندہ رکھے گا،ان شاء اﷲ تعالیٰ۔
0 Responses

Post a Comment

ثمر فصاحت 2013. Powered by Blogger.